سر مظہر
سر مظہر کا پورا نام مجھے معلوم نہیں کیونکہ اِس کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ سر مظہر چند ماہ کے لئے میرے ٹیوٹر مقرر ہوئے تھے۔ اُن کو پان کھانے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنا کام بڑی ایمانداری سے کرتے تھے۔ انہیں ہمارے گھر کے پکوان اچھے لگتے تھے اور اِس کے لئے وہ بہت دیر تک پڑھانے میں لگے رہتے تھے۔ میری والدہ کی بنی ہوئے کڑک چائے تو اُن کو بے حد پسند تھی۔ اُن کی زندگی کا بڑا حصہ کراچی میں گذرا تھا۔ پان اور کڑک چائے کا چسکا وہاں سے ہی لائے تھے۔
سر مظہر کی چند بُری باتیں بھی تھیں۔ وہ بُری باتیں یہ تھیں۔ وہ مجھے کبھی بہت بُرا کہتے تھے۔ جب کبھی میرا کام اچھا نہیں ہوتا تھا تو بہت ڈانتے تھے۔ ڈانٹتے ہی جاتے تھے بہت دیر تک۔ بار بار یہ دہراتے لَرن وِد ذِیل۔ کچھ دیر بعد پنجابی میں کہتے اس کا مطلب ہے "کَم نُوں مگروں نئیں لا ہنا ہوندا"۔
اُن کی بہت ساری اچھی باتیں بھی تھیں۔ سب سے اچھی بات جو مجھے تو سب سے بُری لگتی تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ کام میں بہت محنت کرتے تھے۔ صحیح طریقے سے پڑھائے بنا جاتے ہی نہیں تھے۔ اگر کام اُن کی مرضی کے مطابق نہ ہوتا تو خوارہی کر دیتے تھے۔ انہیں زیادہ فیس کا لالچ بھی نھیں تھا۔
میری بہن ذروا عروج بھی میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ سر مظہر ہم دونوں کو بہت توجہ سے پڑھاتے تھے۔ وہ دل کے بہت اچھے تھے اور ایمانداری سے کام کرتے تھے۔
پھر ایک دن پتہ چلا کہ وہ کہیں گر گئے ہیں اور اب گاڑی نہیں چلا سکتے۔ کچھ دن تو بہت اچھا لگا مگر پھر ہم اُن کو مس کرنے لگے۔ کئی دن کے بعد وہ ہمارے گھر آئے اور اپنی پسندیدہ چائے پیتے ہوئے بتایا کہ وہ اب بحریہ ٹاؤن نہیں آ سکتے۔ انہوں نے اپنا گھر کہیں دور لے لیا تھا۔
سر مظہر! آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کی محنت کا ہم کو بہت زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔